وہ دشت تیرگی ہے کہ کوئی صدا نہ دے
سایہ بھی میرے جسم کا مجھ کو پتا نہ دے
نا آگہی کی رات بھی کتنی لطیف تھی
یہ آگہی کی دھوپ ہے چہرہ جلا نہ دے
خوابوں کا اک لطیف سا ہے عکس ذہن پر
باد سموم وقت اسے بھی مٹا نہ دے
چشم غزال جھیل کا منظر حسین موت
میری طرف نہ دیکھ مجھے یہ سزا نہ دے
دل سے بھی اس نگاہ کا جادو چھپا لیا
ناداں ہے سادگی میں کہیں کچھ بتا نہ دے
شائستگی کا جبر کہ رویا نہ جا سکا
چپ چاپ دل کی آگ بدن کو گھلا نہ دے
اک پل کو بھی سکون نہ دے زندگی شمیمؔ
اور بھاگنا بھی چاہوں تو یہ راستا نہ دے

غزل
وہ دشت تیرگی ہے کہ کوئی صدا نہ دے
سید احمد شمیم