EN हिंदी
وہ در تلک آوے نہ کبھی بات کی ٹھہرے | شیح شیری
wo dar talak aawe na kabhi baat ki Thahre

غزل

وہ در تلک آوے نہ کبھی بات کی ٹھہرے

مصحفی غلام ہمدانی

;

وہ در تلک آوے نہ کبھی بات کی ٹھہرے
حیراں ہوں میں کس طرح ملاقات کی ٹھہرے

ہر روز کا ملنا ہے جو دشوار تو پیارے
اتنا تو کرو قصد کہ اک رات کی ٹھہرے

جس وقت کہ ہم آئیں تو یہ چاہئے تم کو
اوروں سے نہ پھر حرف و حکایات کی ٹھہرے

اے دیدۂ تر تم بھی جھڑی اپنی لگا دو
اس سال تو برسات میں برسات کی ٹھہرے

کس چیز پہ پھر ہم ہوں گفتار تعین
دن رات کی ٹھہرے ہے نہ اوقات کی ٹھہرے

جب کاٹ کے دل پیر گئی ہووے جگر میں
پھر کیوں نہ چھری آپ کی اس بات کی ٹھہرے

ہر روز یہ چاہے ہے تری چشم کی گردش
اس مرکز خاکی پہ کچھ آفات کی ٹھہرے

اے مصحفیؔ اس وقت وہ مہماں ہے تمہارے
ہے گھات کی جاگہ تو، اگر گھات کی ٹھہرے