EN हिंदी
وہ چال اٹکھیلیوں سے چل کر دل و جگر روندے ڈالتے ہیں | شیح شیری
wo chaal aTkheliyon se chal kar dil o jigar raunde Dalte hain

غزل

وہ چال اٹکھیلیوں سے چل کر دل و جگر روندے ڈالتے ہیں

مرزا آسمان جاہ انجم

;

وہ چال اٹکھیلیوں سے چل کر دل و جگر روندے ڈالتے ہیں
ابھی جوانی کا ہے جو عالم نہ دیکھتے ہیں نہ بھالتے ہیں

چلا ہے پہلو سے یار اٹھ کر غم جدائی کو ٹالتے ہیں
کبھی تو ہم دل کو تھامتے ہیں کبھی جگر کو سنبھالتے ہیں

کبھی نہ جن کو لگایا تھا منہ گلے میں باہیں وہ ڈالتے ہیں
جو مانگتا ہوں میں ایک بوسہ تو آپ آنکھیں نکالتے ہیں

اگر یہی ہے تلون ان کا خدا ہی ہے وعدہ ہو جو پورا
کہا تھا کل آج وصل ہوگا وہ آج پھر کل پہ ٹالتے ہیں

نہ قہر رفتار ناز ڈھائے لچک نہ وقت خرام آئے
خدا ہی نازک کمر بچائے کہ پائنچے وہ سنبھالتے ہیں

نہ جاں بہ لب کیوں مریض غم ہو پئے عیادت نہ آئے دیکھو
مسیح کہتے ہیں لوگ جن کو وہ جان کر مار ڈالتے ہیں

کبھی یہ کہتے ہیں درد سر ہے کبھی یہ کہتے ہیں اب سحر ہے
ستم یہ مشتاق وصل پر ہے ہزاروں حیلے نکالتے ہیں

نکالوں ارمان کیوں نہ جی کے کہ مست ہوں جام عشق پی کے
میں صدقے اس اپنی بے خودی کے کہ دوڑ کر وہ سنبھالتے ہیں

کسی کے انجمؔ جو ہیں سکھائے تو ہیں نیا رنگ آج لائے
کہ چپکے بیٹھے ہیں سر جھکائے نہ بولتے ہیں نہ چالتے ہیں