EN हिंदी
وہ بھی کچھ بھولا ہوا تھا میں کچھ بھٹکا ہوا | شیح شیری
wo bhi kuchh bhula hua tha main kuchh bhaTka hua

غزل

وہ بھی کچھ بھولا ہوا تھا میں کچھ بھٹکا ہوا

اقبال اشہر

;

وہ بھی کچھ بھولا ہوا تھا میں کچھ بھٹکا ہوا
راکھ میں چنگاریاں ڈھونڈی گئیں ایسا ہوا

داستانیں ہی سنانی ہیں تو پھر اتنا تو ہو
سننے والا شوق سے یہ کہہ اٹھے پھر کیا ہوا

عمر کا ڈھلنا کسی کے کام تو آیا چلو
آئنے کی حیرتیں کم ہو گئیں اچھا ہوا

رات آئی اور پھر تاریخ کو دہرا گئی
یوں ہوا اک خواب تو دیکھا مگر دیکھا ہوا

وہ کسی کو یاد کر کے مسکرایا تھا ادھر
اور میں نادان یہ سمجھا کہ وہ میرا ہوا