وہ بھی بگڑا، ہوئی رسوائی بھی
جان لیوا ہے شناسائی بھی
دل کی جانب جو چلی غم کی ہوا
لڑکھڑانے لگی تنہائی بھی
تھا مقابل جو مرے دوست مرا
مجھ کو اچھی لگی پسپائی بھی
کیوں اٹھاتے ہو ہمیں ہوتے ہیں
ہر تماشے میں تماشائی بھی
چاندنی ہاتھ پہ رکھ کر شب نے
ایک صورت مجھے دکھلائی بھی
سعدؔ کچھ بھی نہ بنے گر تجھ سے
ایک صورت ہے شکیبائی بھی
غزل
وہ بھی بگڑا، ہوئی رسوائی بھی
سعد اللہ شاہ