EN हिंदी
وہ برسات کی شب وہ پچھلا پہر | شیح شیری
wo barsat ki shab wo pichhla pahar

غزل

وہ برسات کی شب وہ پچھلا پہر

عادل منصوری

;

وہ برسات کی شب وہ پچھلا پہر
اندھیرے کے پہلو میں سنسان گھر

کھلیں گے ابھی اور کس کس کے در
کہاں ختم ہوگا لہو کا سفر

کچھ اپنے عقائد بھی کمزور تھے
لرزتے تھے سائے بھی دیوار پر

اجالے سمٹتے رہے آنکھ میں
ستارے بکھرتے رہے فرش پر

بدن میں پگھلتی رہی چاندنی
لہو میں سلگتی رہی دوپہر

کبھی خاک والوں کی باتیں بھی سن
کبھی آسمانوں سے نیچے اتر

قدم گھر میں رکھتے ہی گھائل ہوا
گرے ٹوٹ کر مجھ پہ دیوار و در