وہ برسات کی شب وہ پچھلا پہر
اندھیرے کے پہلو میں سنسان گھر
کھلیں گے ابھی اور کس کس کے در
کہاں ختم ہوگا لہو کا سفر
کچھ اپنے عقائد بھی کمزور تھے
لرزتے تھے سائے بھی دیوار پر
اجالے سمٹتے رہے آنکھ میں
ستارے بکھرتے رہے فرش پر
بدن میں پگھلتی رہی چاندنی
لہو میں سلگتی رہی دوپہر
کبھی خاک والوں کی باتیں بھی سن
کبھی آسمانوں سے نیچے اتر
قدم گھر میں رکھتے ہی گھائل ہوا
گرے ٹوٹ کر مجھ پہ دیوار و در
غزل
وہ برسات کی شب وہ پچھلا پہر
عادل منصوری