EN हिंदी
وہ بات جس سے یہ ڈر تھا کھلی تو جاں لے گی | شیح شیری
wo baat jis se ye Dar tha khuli to jaan legi

غزل

وہ بات جس سے یہ ڈر تھا کھلی تو جاں لے گی

عاطف خان

;

وہ بات جس سے یہ ڈر تھا کھلی تو جاں لے گی
سو اب یہ دیکھیے جا کے وہ دم کہاں لے گی

ملے گی جلنے سے فرصت ہمیں تو سوچیں گے
پناہ راکھ ہماری کہاں کہاں لے گی

یہ آگ جس نے جلائے ہیں شہروں جنگل سب
کبھی بجھے گی تو یہ صورت خزاں لے گی

یہ دن جو تھا یہ رہا ہیں گواہ وعدوں کا
یہ شب جو ہے ترے دعووں کا امتحاں لے گی

اتر گئی ہے مرے جسم میں جو یہ وحشت
نکلتے وقت یہی عمر جاوداں لے گی

ذرا سی خاک لہو دے کے مطمئن ہیں کیوں
ابھی تو راہ سفر رہروؤں کہ جاں لے گی

وسیع اتنی ہے عریانیت یہ جاں کی دیکھ
بدن کے ڈھکنے کو یہ کتنے آسماں لے گی

بریدہ سر کیے جائیں گے سب جواں کردار
وہ چہرہ دیکھنا عاطفؔ یہ داستاں لے گی