وہ اور ہوں گے جو وہم و گماں کے ساتھ چلے
ہم اپنی راہ پہ عزم جواں کے ساتھ چلے
تلاش یار میں ہم ہر مقام سے گزرے
کبھی زمین کبھی آسماں کے ساتھ چلے
نہ جانے کتنی ہی صدیوں کے فاصلے ہیں ابھی
ہوئی ہے عمر زمان و مکاں کے ساتھ چلے
کبھی تو پائیں گے ہم بھی حیات کی منزل
اسی خیال سے عمر رواں کے ساتھ چلے
تمام رات کسی اجنبی کا ساتھ رہا
سحر ہوئی تو دل بد گماں کے ساتھ چلے
جو پھول بن کے مہکتے تھے رہ گزاروں میں
غبار بن کے ترے کارواں کے ساتھ چلے
وہ حسن و عشق کے قصے ہیں جن سے وابستہ
انہی کا ذکر مری داستاں کے ساتھ چلے
جنوں کے دوش پہ رکھ کر چراغ ہستی ہم
قضا کو ڈھونڈنے موج رواں کے ساتھ چلے
اسی کو کہتے ہیں شاید نصیب کی گردش
بہار آئے تو شعلہ خزاں کے ساتھ چلے
غزل
وہ اور ہوں گے جو وہم و گماں کے ساتھ چلے
شعلہ ہسپانوی