وہ عکس دل آشنا چھوڑ آئے
کہیں بھی جو نقش وفا چھوڑ آئے
جہاں اہل غم نقش پا چھوڑ آئے
دلوں کے لیے رہنما چھوڑ آئے
اجالا دلوں میں نہ جب کر سکے ہم
تمنا کا جلتا دیا چھوڑ آئے
جو تھے کشتۂ درد ان کے لیے ہم
نہیں کچھ تو دل کی دعا چھوڑ آئے
فرازؔ اس طرح زندگی ہے گزاری
کہ گویا کوئی حادثہ چھوڑ آئے
غزل
وہ عکس دل آشنا چھوڑ آئے
فراز سلطانپوری