EN हिंदी
وہ اگر ہم خیال ہو جائیں | شیح شیری
wo agar ham-KHayal ho jaen

غزل

وہ اگر ہم خیال ہو جائیں

قاسم جلال

;

وہ اگر ہم خیال ہو جائیں
ختم سارے ملال ہو جائیں

وہ ہوں آمادۂ جواب اگر
ہم سراپا سوال ہو جائیں

شہر والوں کا ہے خدا حافظ
چور جب کوتوال ہو جائیں

ہے جدائی خدا کی اک نعمت
قربتیں جب وبال ہو جائیں

ہاتھ سے آس کا عصا نہ گرے
حوصلے جب نڈھال ہو جائیں

ہو اگر آپ کی نگاہ کرم
بے ہنر با کمال ہو جائیں

آؤ نکلیں انا کے خول سے اب
رابطے پھر بحال ہو جائیں

حوصلہ ہار دوں جلالؔ اگر
کام سارے محال ہو جائیں