وہ اب تجارتی پہلو نکال لیتا ہے
میں کچھ کہوں تو ترازو نکال لیتا ہے
وہ پھول توڑے ہمیں کوئی اعتراض نہیں
مگر وہ توڑ کے خوشبو نکال لیتا ہے
میں اس لئے بھی ترے فن کی قدر کرتا ہوں
تو جھوٹ بول کے آنسو نکال لیتا ہے
اندھیرے چیر کے جگنو نکالنے کا ہنر
بہت کٹھن ہے مگر تو نکال لیتا ہے
وہ بے وفائی کا اظہار یوں بھی کرتا ہے
پرندے مار کے بازو نکال لیتا ہے
غزل
وہ اب تجارتی پہلو نکال لیتا ہے
احمد کمال پروازی