EN हिंदी
وہ اب تجارتی پہلو نکال لیتا ہے | شیح شیری
wo ab tijarati pahlu nikal leta hai

غزل

وہ اب تجارتی پہلو نکال لیتا ہے

احمد کمال پروازی

;

وہ اب تجارتی پہلو نکال لیتا ہے
میں کچھ کہوں تو ترازو نکال لیتا ہے

وہ پھول توڑے ہمیں کوئی اعتراض نہیں
مگر وہ توڑ کے خوشبو نکال لیتا ہے

میں اس لئے بھی ترے فن کی قدر کرتا ہوں
تو جھوٹ بول کے آنسو نکال لیتا ہے

اندھیرے چیر کے جگنو نکالنے کا ہنر
بہت کٹھن ہے مگر تو نکال لیتا ہے

وہ بے وفائی کا اظہار یوں بھی کرتا ہے
پرندے مار کے بازو نکال لیتا ہے