EN हिंदी
وہ آرزو کہ دلوں کو اداس چھوڑ گئی | شیح شیری
wo aarzu ki dilon ko udas chhoD gai

غزل

وہ آرزو کہ دلوں کو اداس چھوڑ گئی

صمد انصاری

;

وہ آرزو کہ دلوں کو اداس چھوڑ گئی
مری زباں پہ سخن کی مٹھاس چھوڑ گئی

لکھی گئی ہے مری صبح کے مقدر میں
وہ روشنی جو کرن کا لباس چھوڑ گئی

اٹھی تھی موج جو مہتاب کے کنارے سے
زمیں کے گرد فلک کی اساس چھوڑ گئی

یہ کس مقام تمنا سے بے خودی گزری
یہ کس کا نام پس التماس چھوڑ گئی

چراغ زیست سے اتری تھی ایک حرف کی لو
جلو میں اپنی مرا اقتباس چھوڑ گئی

گزر گئی ہے افق سے سپاہ شب لیکن
جوار صبح میں خوف و ہراس چھوڑ گئی

گھٹا اٹھی تھی کسی تشنگی کے صحرا سے
جو قطرہ قطرہ سمندر کی پیاس چھوڑ گئی

مری خموش لبی مجھ میں رات بھر گونجی
صدائیں کتنی مرے آس پاس چھوڑ گئی

یہ کس خیال کی پرچھائیں تھی منڈیروں پر
تمام شہر کو محو قیاس چھوڑ گئی

بسی جو آ کے زمیں میں صمدؔ شناخت مری
مرے بدن میں سجا کر حواس چھوڑ گئی