وہ عارض گلابی وہ گیسو گھنیرے
اسی سمت ہیں دیدہ و دل کے پھیرے
اجالے کی روداد وہ دل لکھے گا
کہ جس دل سے پسپا ہوئے ہیں اندھیرے
بڑا فرق ہے تیرے میرے جہاں میں
ادھر ظلمت شب ادھر ہیں سویرے
کسی سے کبھی آپ بیتی نہ کہنا
امڈ آئیں گے ہر طرف سے اندھیرے
خلوص دل و جاں مری کم نگاہی
فریب مسلسل بھی احسان تیرے
وہ اک وعدۂ جام سرشار و رنگیں
وہ اک شام لیکن ہزاروں سویرے
ہر اک فتنہ گر دیکھ لے رنگ سیفیؔ
اسی آشیانے میں سکھ کے بسیرے
غزل
وہ عارض گلابی وہ گیسو گھنیرے
سیفی پریمی