وہ آنکھیں جن سے ملاقات اک بہانہ ہوا
انہیں خبر ہی نہیں کون کب نشانہ ہوا
ستارۂ سحری کا بھروسہ مت کیجو
نئے سفر میں یہ رخت سفر پرانا ہوا
نہ جانے کون سی آتش میں جل بجھے ہم تم
یہاں تو جو بھی ہوا ہے درون خانہ ہوا
کچھ اس طرح سے وہ شامل ہوا کہانی میں
کہ اس کے بعد جو کردار تھا فسانہ ہوا
اسی ستارے نے بھٹکا دیا سر منزل
سفر پہ جو مری تحویل میں روانہ ہوا
سنا ہے تجھ کو تو ہم یاد بھی نہیں آتے
یہ امتحاں تو نہیں یہ تو آزمانا ہوا
ہمیں تو عشق مقدر ہے جیسے رزق سلیمؔ
سو چل پڑیں گے جہاں اپنا آب و دانہ ہوا
غزل
وہ آنکھیں جن سے ملاقات اک بہانہ ہوا
سلیم کوثر