وہ آج مجھ سے جب ملی تو دھند چھٹ گئی
مگر نہ جانے کیا ہوا زمیں ہی پھٹ گئی
وہ لمحہ ایک چاند تھا مہکتی رات کا
وہ چاند بجھ سکا نہ تھا کہ رات کٹ گئی
بیاض درد جب کھلی تو دل ہنسا مگر
گزشتہ عہد کی ہوا ورق الٹ گئی
ہمارا ایسا دور بھی رہا کہ ہر گلی
جدھر سے ہم گزر گئے سمٹ سمٹ گئی
تمام خشک جسم سبز سبز ہو گیا
وہ ایک پیاسی بیل مجھ سے جب لپٹ گئی
خیال اس کا آیا تو خزاں کی شام کیا
کبھی کبھی تو عمر کی ندی پلٹ گئی
غزل
وہ آج مجھ سے جب ملی تو دھند چھٹ گئی
سلطان سبحانی