وہ آدمی نہیں ہے مکمل بیان ہے
ماتھے پہ اس کے چوٹ کا گہرا نشان ہے
وہ کر رہے ہیں عشق پہ سنجیدہ گفتگو
میں کیا بتاؤں میرا کہیں اور دھیان ہے
سامان کچھ نہیں ہے پھٹے حال ہے مگر
جھولے میں اس کے پاس کوئی سنویدھان ہے
اس سر پھرے کو یوں نہیں بہلا سکیں گے آپ
وہ آدمی نیا ہے مگر ساؤدھان ہے
پھسلے جو اس جگہ تو لڑھکتے چلے گئے
ہم کو پتہ نہیں تھا کہ اتنی ڈھلان ہے
دیکھے ہیں ہم نے دور کئی اب خبر نہیں
پاؤں تلے زمین ہے یا آسمان ہے
وو آدمی ملا تھا مجھے اس کی بات سے
ایسا لگا کہ وہ بھی بہت بے زبان ہے
غزل
وہ آدمی نہیں ہے مکمل بیان ہے
دشینتؔ کمار