وہ آ رہے ہیں وہ جا رہے ہیں مرے تصور پہ چھا رہے ہیں
کبھی ہیں دل میں کبھی جگر میں کبھی نظر میں سما رہے ہیں
جنوں نوازی ہے میری فطرت اسی سے حاصل ہے مجھ کو راحت
جو مجھ سے ہوش و خرد نے چھینا جنوں کے صدقہ وہ پا رہے ہیں
جگر کو روکوں یا دل کو تھاموں الٰہی کس کس کو میں سنبھالوں
مرے تصور کی انجمن میں وہ آج بن ٹھن کے آ رہے ہیں
لگائی دل میں کچھ ایسی تو نے یہ آتش سوزش محبت
بھڑک رہی ہے یہ اتنا پیہم ہم اس کو جتنا بجھا رہے ہیں
یہ راہ الفت کی ٹھوکریں ہیں انہیں نہ منزل سمجھ کے ٹھہرو
قدم بڑھاؤ وہ قافلہ ہے تمہارے ساتھی بلا رہے ہیں
ہیں رہروان رہ محبت نرالی رسمیں نرالی فطرت
جہاں لٹا کاروان الفت وہیں پہ منزل بنا رہے ہیں
نہ ہم کو شعر و سخن سے مطلب نہ عشرت انجمن سے مطلب
کسی کو اقبالؔ داستان غم محبت سنا رہے ہیں
غزل
وہ آ رہے ہیں وہ جا رہے ہیں مرے تصور پہ چھا رہے ہیں
اقبال حسین رضوی اقبال