وصل سے تب بھرے ہمارا پیٹ
پیٹ سے جب ملے تمہارا پیٹ
تھک گئے ہم تو بھرتے بھرتے اسے
کھاتے کھاتے کبھی نہ ہارا پیٹ
صاف دریائے حسن کا ہے پاٹ
کیسا دلچسپ ہے تمہارا پیٹ
ناف تیری ہے یار نافۂ مشک
اور فضائے ختن ہے سارا پیٹ
ہوا نظارۂ شکم نہ نصیب
سحرؔ ہر چند ہم نے مارا پیٹ
غزل
وصل سے تب بھرے ہمارا پیٹ
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی