وصل میں بگڑے بنے یار کے اکثر گیسو
الجھے سلجھے مری تقدیر سے شب بھر گیسو
میں نہ مانوں گا یہ ظلمت اسے کس دن ہو نصیب
ہو گئے ہوں گے شریک شب محشر گیسو
کہنے سننے سے اگر وصل ہوا بھی تو کیا
ضد سے بیٹھے وہ بنایا کیے شب بھر گیسو
چاہتے ہیں کہ پریشاں پس مردن بھی رہوں
کھول دیتے ہیں مری گور پر آ کر گیسو
اڑ چلا اور بھی وہ رشک پری زاداں سے
بن گئے حسن کے پرواز کو شہپر گیسو
آرزو ہے کہ شب قدر ہو یا شام امید
کچھ دکھائے نہ خدا تیرے دکھا کر گیسو
یہ بھی تقدیر کے ہیں پیچ وگرنہ تسلیمؔ
مجھ سا آزاد ہو پابند معنبر گیسو
غزل
وصل میں بگڑے بنے یار کے اکثر گیسو
امیر اللہ تسلیم