EN हिंदी
وصل کی ان بتوں سے آس نہیں | شیح شیری
wasl ki un buton se aas nahin

غزل

وصل کی ان بتوں سے آس نہیں

دتا تریہ کیفی

;

وصل کی ان بتوں سے آس نہیں
کہ ٹکے دکشنا کو پاس نہیں

امتحان وفا پہ کرب فراق
پاس ہیں ہائے اور پاس نہیں

نفس کو مار کر ملے جنت
یہ سزا قابل قیاس نہیں

دم میں یہ آنا اور جانا کیا
آپ انساں ہیں کچھ حواس نہیں

خوف ویراں ہوا ہے خانۂ دل
آس کیسی کہ یاں تو یاس نہیں

کعبہ میں جا کے کیا کریں زاہد
واں کی آب و ہوا ہی راس نہیں

شاعری ہے مری کہ سحر حلال
بھلا کہہ دیں تو حق شناس نہیں

پاؤں کس سے مذاق شعر کی داد
آج فیضیؔ و کالیداسؔ نہیں

جام خورشید میں ہے آب حیات
رام رنگی کا یہ گلاس نہیں

کیفیؔ اور جام بادہ سے انکار
تم کو کچھ نام کا بھی پاس نہیں