وصل کی تو کبھی فرقت کی غزل لکھتے ہیں
ہم تو شاعر ہیں محبت کی غزل لکھتے ہیں
پڑھیے ان کو کسی کاغذ پہ نہیں سرحد پر
اپنے خوں سے جو شہادت کی غزل لکھتے ہیں
رہنما اپنے وطن کے بھی ہیں کتنے شاطر
وہ شہادت پہ سیاست کی غزل لکھتے ہیں
تم نے مزدور کے چھالے نہیں دیکھے شاید
اپنے ہاتھوں پہ وہ محنت کی غزل لکھتے ہیں
ملک ایسے بھی ہیں کچھ خاص پڑوسی اپنے
سرحدوں پہ جو عداوت کی غزل لکھتے ہیں
ہم سبھی چین سے سوتے ہیں مگر راتوں میں
فوج والے تو حفاظت کی غزل لکھتے ہیں
شوق لکھنے کا بہت ہم کو بھی ہے لیکن ہم
سونے کے پین سے غربت کی غزل لکھتے ہیں
غزل
وصل کی تو کبھی فرقت کی غزل لکھتے ہیں
اشوک مزاج بدر