وصل کی شب میں بھی ہم باہم دگر رویا کئے
میں جدائی سے وہ میرے حال پر رویا کئے
اس نے زانو غیر کا اپنے رکھا جب زیر سر
اپنے زانو پر ہم اپنا رکھ کے سر رویا کئے
اس نے آنسو غیر کے پونچھے جب اپنے ہاتھ سے
ہم نشیں یہ ماجرا ہم دیکھ کر رویا کئے
ہو گیا مشکل مری مژگاں سے مژگاں کا ملاپ
حائل اک دریا ہوا ہم اس قدر رویا کئے
سرخ رو بے آبروئی میں بھی ہم صنعتؔ رہے
خشک جب آنسو ہوئے لخت جگر رویا کئے

غزل
وصل کی شب میں بھی ہم باہم دگر رویا کئے
کریم الدین صنعت مرادآبادی