EN हिंदी
وصل کی شب میں بھی ہم باہم دگر رویا کئے | شیح شیری
wasl ki shab mein bhi hum baham digar roya kiye

غزل

وصل کی شب میں بھی ہم باہم دگر رویا کئے

کریم الدین صنعت مرادآبادی

;

وصل کی شب میں بھی ہم باہم دگر رویا کئے
میں جدائی سے وہ میرے حال پر رویا کئے

اس نے زانو غیر کا اپنے رکھا جب زیر سر
اپنے زانو پر ہم اپنا رکھ کے سر رویا کئے

اس نے آنسو غیر کے پونچھے جب اپنے ہاتھ سے
ہم نشیں یہ ماجرا ہم دیکھ کر رویا کئے

ہو گیا مشکل مری مژگاں سے مژگاں کا ملاپ
حائل اک دریا ہوا ہم اس قدر رویا کئے

سرخ رو بے آبروئی میں بھی ہم صنعتؔ رہے
خشک جب آنسو ہوئے لخت جگر رویا کئے