وصل کی رت ہو کہ فرقت کی فضا مجھ سے ہے
عشق کی راہ میں سب اچھا برا مجھ سے ہے
یہ حقیقت ہے کہ تجھ سے ہے مرا ہونا مگر
بندگی میری ہے سو تو بھی خدا مجھ سے ہے
تو تو بس چھوڑ گیا تھا میرے سینہ میں اسے
تیری فرقت کا مگر زخم ہرا مجھ سے ہے
میرے ہی ہونے سے تاری ہے دوانوں پہ جنوں
تیرے نزدیک بھی یہ رقص ہوا مجھ سے ہے
ورنہ ایک تجربۂ دید ہی کافی ہوتا
میری ہی آنکھ مگر خوفزدہ مجھ سے ہے
میں نے بخشا ہے تجھے یہ گل تازہ کا شباب
یہ نئی خوشبوئیں یہ رنگ نیا مجھ سے ہے
مجھ سے حاصل تھا تیرے جسم کے دھاگے کو کپاس
کس طرح سوچتا ہے تو کہ جدا مجھ سے ہے

غزل
وصل کی رت ہو کہ فرقت کی فضا مجھ سے ہے
راہل جھا