EN हिंदी
وصل کی بات اور ہی کچھ تھی | شیح شیری
wasl ki baat aur hi kuchh thi

غزل

وصل کی بات اور ہی کچھ تھی

سیف الدین سیف

;

وصل کی بات اور ہی کچھ تھی
ان دنوں رات اور ہی کچھ تھی

پہلی پہلی نظر کے افسانے
وہ ملاقات اور ہی کچھ تھی

آپ آئے تھے زندگی میری
رات کی رات اور ہی کچھ تھی

دل نے کچھ اور ہی لیا مطلب
آپ کی بات اور ہی کچھ تھی

سیفؔ پی کر بھی تشنگی نہ گئی
اب کے برسات اور ہی کچھ تھی