وصل کے لمحے کہانی ہو گئے
شب کے موتی صبح پانی ہو گئے
رفتہ رفتہ زندگانی ہو گئے
غم کے لمحے جاودانی ہو گئے
دولت عہد جوانی ہو گئے
چند لمحے جو کہانی ہو گئے
کیسی کچھ رنگینیاں تھیں جن سے ہم
محو سیر دہر فانی ہو گئے
سکھ بھرے دکھ دکھ بھرے سکھ سب کے سب
واقعات زندگانی ہو گئے
مسکرائے آپ جانے کس لیے
ہم رہین شادمانی ہو گئے
باتوں ہی باتوں میں راتیں اڑ گئیں
ہائے وہ دن بھی کہانی ہو گئے
تم نے کچھ دیکھا خلوص جذب شوق
سنگ ریزے گل کے پانی ہو گئے
فرحتؔ ایسی بت پرستی کے نثار
بت بھی محو لن ترانی ہو گئے
غزل
وصل کے لمحے کہانی ہو گئے
فرحت کانپوری