وصف جمال ذوق ہے اہل نگاہ کا
حیرت کہوں کہ شور کہوں واہ واہ کا
اہل جنوں پہ ظلم ہے پابندیٔ رسوم
جادہ ہمارے واسطے کانٹا ہے راہ کا
رکھتا ہے تلخ کام غم لذت جہاں
کیا کیجئے کہ لطف نہیں کچھ گناہ کا
کیا کچھ جناب شیخ کی نیت سے تھا بعید
موقع بھی دخت رز نے دیا ہو گناہ کا
اے برق کب سے اک نظر گرم کے لئے
آتش بجاں ہے دشت میں تنکا گیاہ کا
ہنگامۂ حیات سے لینا تو کچھ نہیں
ہاں دیکھتے چلو کہ تماشا ہے راہ کا
میں حاصل نظر ہوں تمنائے دید میں
لیتا ہوں کام ہر بن مو سے نگاہ کا
ناطقؔ گلہ پسند ہے تو غم جفا پسند
اے داد خواہ کام ہے بیداد خواہ کا
غزل
وصف جمال ذوق ہے اہل نگاہ کا
ناطق گلاوٹھی