ورق ورق یہ فسانہ بکھرنے والا تھا
بچا لیا مجھے اس نے میں مرنے والا تھا
شگفتہ پھول پریشاں ہوا تو غم نہ کرو
کہ وہ تو یوں بھی ہوا میں بکھرنے والا تھا
میں اس کو دیکھ کے پھر کچھ نہ دیکھ پاؤں گا
یہ حادثہ بھی مجھی پر گزرنے والا تھا
صدائے سنگ نے مجھ کو بچا لیا ورنہ
میں اس پہاڑ سے ٹکرا کے مرنے والا تھا
میں بے قصور ہوں یہ فیصلہ ہوا ورنہ
میں اپنے جرم کا اقرار کرنا والا تھا
پہاڑ سینہ سپر ہو گیا تھا میرے لیے
وگرنہ مجھ میں سمندر اترنے والا تھا
غزل
ورق ورق یہ فسانہ بکھرنے والا تھا
احتشام اختر