ورق ورق جو زمانے کے شاہکار میں تھا
وہ زندگی کا صحیفہ بھی انتشار میں تھا
جسے میں ڈھونڈ رہا تھا نوائے بلبل میں
وہ نغمہ پیرہن گل کے تار تار میں تھا
میں قتل ہو کے زمانے میں سرفراز رہا
کہ میری جیت کا پہلو بھی میری ہار میں تھا
کلیجے سارے درختوں کے سہمے جاتے تھے
ہوا کا رخ تھا بھلا کس کے اختیار میں تھا
وہ نا شناس وفا سیج پر تھا پھولوں کی
میں آشنائے وفا دشت خار خار میں تھا
دیار غیر میں حاصل تھیں شہرتیں مجھ کو
میں اجنبی کی طرح اپنے ہی دیار میں تھا
سمجھ رہا تھا میں خوابیدہ خود کو ساحل پر
کھلی جب آنکھ تو دریا کی تیز دھار میں تھا
نگاہ والوں میں اس کا بھرم نہ رہ پایا
وہ سنگ تھا مگر آئینوں کی قطار میں تھا
محبتیں تھیں مرے اختیار میں لیکن
محبتوں کا صلہ اس کے اختیار میں تھا
چمک رہا وہی گوہر وفا بن کر
گہرؔ جو اشک مری چشم انتظار میں تھا

غزل
ورق ورق جو زمانے کے شاہکار میں تھا
گہر خیرآبادی