ورق ہے میرے صحیفے کا آسماں کیا ہے
رہا یہ چاند تو شاید تمہارا چہرا ہے
جو پوچھتا تھا مری عمر اس سے کہہ دینا
کسی کے پیار کے موسم کا ایک جھونکا ہے
سمٹ گیا تھا اندھیروں کو دیکھ کر لیکن
سحر کے ساتھ مرے راستے میں بکھرا ہے
جسے بچاتا رہا تھا میں آبرو کی طرح
وہ لمحہ آج مری مٹھیوں سے پھسلا ہے
فضا کی شاخ پہ لفظوں کے پھول کھلنے دو
جسے سکوت سمجھتے ہو زرد پتہ ہے
ابھی تو میرے گریباں میں ہے تری خوشبو
ترے بدن پہ ابھی میرا نام لکھا ہے
ہر ایک شخص کو امید بس اسی سے ہے
ہمارے شہر میں وہ ایک ہی تو رسوا ہے
غزل
ورق ہے میرے صحیفے کا آسماں کیا ہے
علی عباس امید