EN हिंदी
وقتی یہ حساب ظلم کب ہے | شیح شیری
waqti ye hisab-e-zulm kab hai

غزل

وقتی یہ حساب ظلم کب ہے

محشر بدایونی

;

وقتی یہ حساب ظلم کب ہے
تاریخ کے حافظے میں سب ہے

ہم پہلے بھی کم دکھی نہیں تھے
یہ حال کبھی نہ تھا جو اب ہے

جانوں کو لگا شدید آزار
سنگین ہی کچھ اس کا سبب ہے

وہ رت ہے نہ اب وہ ہم نوا ہیں
اب نوحۂ خو گری ہی کار لب ہے

احساس کے بند ٹوٹتے ہیں
لیکن یہ شکستگی عجب ہے

دل جلتا ہے کچھ کھلے بھی آخر
کب تک یہ تمازت غضب ہے

کیا موت ہی اب ہے چارۂ جاں
ہر لمحۂ‌ عمر خوں طلب ہے