وقت وقت کی بات ہے یا دستور ہے دنیا کا سائیں
دن ڈھلتے ہی بڑھ جاتا ہے قد سے خود سایا سائیں
ڈھونڈنے والے پا لیتی ہیں انت سمندر کا سائیں
تھاہ ملی نہیں جس کی کسی کو دل ہے وہ دریا سائیں
منزل عشق میں ایسے ایسے ہوش ربا کچھ موڑ ملے
راہ دکھانے والے گھر کا بھول گئے رستا سائیں
عشق کے طوفانی دریا میں جو ڈوبا وہ پار گیا
کچے گھڑے نے بیچ بھنور میں کس کا ساتھ دیا سائیں
یہ داتا کی دین ہے بادل گھر کے سمندر پر برسا
اور کنارے پیاسا کوئی قطرے کو ترسا سائیں
جو طوفان آیا تھا اس کے اب کوئی آثار نہیں
قلزم درد میں دل کا سفینہ کب کا ڈوب گیا سائیں
کان میں میرے چپکے چپکے کون یہ کہتا ہے عشقیؔ
ہر دن دنیا وہی پرانی ہر شب خواب نیا سائیں
غزل
وقت وقت کی بات ہے یا دستور ہے دنیا کا سائیں
الیاس عشقی