وقت سے پہلے ہوئی شام گلہ کس سے کروں
رہ گئے کتنے مرے کام گلہ کس سے کروں
اپنی ناکام تمنا کا سبب میں تو نہ تھی
آ گیا مجھ پہ ہی الزام گلہ کس سے کروں
دل ہراساں ہے بہت دیکھ کے انجام وفا
اے مری حسرت ناکام گلہ کس سے کروں
اب تو وہ مجھ سے ملاتا ہی نہیں اپنی نظر
اب چھلکتے ہی نہیں جام گلہ کس سے کروں
میرے قدموں نے مرا ساتھ کہاں چھوڑ دیا
منزل شوق تھی دو گام گلہ کس سے کروں
ہجر کا روگ بھی رسوائی بھی پائی رومیؔ
پوچھ مت عشق کا انجام گلہ کس سے کروں
غزل
وقت سے پہلے ہوئی شام گلہ کس سے کروں
رومانہ رومی