EN हिंदी
وقت سے ہم گلہ نہیں کرتے | شیح شیری
waqt se hum gila nahin karte

غزل

وقت سے ہم گلہ نہیں کرتے

غلام محمد سفیر

;

وقت سے ہم گلہ نہیں کرتے
کام کوئی برا نہیں کرتے

اشک بھی ہوں رخ تبسم پر
زندگی یوں جیا نہیں کرتے

حسن والو ذرا بتاؤ نا
کیوں کسی سے وفا نہیں کرتے

کچھ تو پاتے ہی ہوں گے پروانے
بے وجہ ہی جلا نہیں کرتے

دل ہے یارا کوئی مکان نہیں
ہر کسی کو دیا نہیں کرتے

عشق کی ابتدا ہے تم سے اگر
مجھ پہ کیوں انتہا نہیں کرتے

مسکرانا تو بھول ہی جاؤ
اشک بھی اب بہا نہیں کرتے

تم کو آسان ہے بھلا دینا
ہم مگر یہ کیا نہیں کرتے

اشک پینے کی لت لگی ہو جنہیں
جام فرحت پیا نہیں کرتے

جن کے دل میں جنون و الفت ہو
شوق خندہ رکھا نہیں کرتے

ماہ کامل ہو تم ہو اور میں ہوں
یہ نظارے دکھا نہیں کرتے

میں برا ہوں مگر انوکھا ہوں
میرے جیسے ملا نہیں کرتے

خاص ہوتی ہیں باتیں کچھ اپنی
سب سے سب کچھ کہا نہیں کرتے

درد نے سب سکھا دیا ہے سفیرؔ
ورنہ ہم تو لکھا نہیں کرتے