EN हिंदी
وقت نے اک نظر جو ڈالی ہے | شیح شیری
waqt ne ek nazar jo Dali hai

غزل

وقت نے اک نظر جو ڈالی ہے

سیمان نوید

;

وقت نے اک نظر جو ڈالی ہے
پھول کی تازگی چرا لی ہے

آج بھی اس نے شام سے پہلے
دھوپ دیوار سے اٹھا لی ہے

اب ہوا چیختی پھرے شب بھر
شہر تو شام ہی سے خالی ہے

موت بھی اس لیے نہیں آتی
زندگی زندگی سے خالی ہے

ہے ملاقات اس سے خوابوں میں
اور یہ تصویر بھی خیالی ہے

ہم سفر بھی نیا بنا لیں گے
رہ گزر جب نئی بنا لی ہے

آئینہ گرد سے اٹا ہے نویدؔ
اور بے چہرگی مثالی ہے