وقت نے اک نظر جو ڈالی ہے
پھول کی تازگی چرا لی ہے
آج بھی اس نے شام سے پہلے
دھوپ دیوار سے اٹھا لی ہے
اب ہوا چیختی پھرے شب بھر
شہر تو شام ہی سے خالی ہے
موت بھی اس لیے نہیں آتی
زندگی زندگی سے خالی ہے
ہے ملاقات اس سے خوابوں میں
اور یہ تصویر بھی خیالی ہے
ہم سفر بھی نیا بنا لیں گے
رہ گزر جب نئی بنا لی ہے
آئینہ گرد سے اٹا ہے نویدؔ
اور بے چہرگی مثالی ہے
غزل
وقت نے اک نظر جو ڈالی ہے
سیمان نوید