وقت نے دل کی طبیعت میں وفا رکھی ہے
کلفت آگہی پھر اس کی سزا رکھی ہے
دل ہو پژمردہ تو ہے خندۂ گل بے معنی
ہر خوشی اور غمی دل نے چھپا رکھی ہے
چاک کرتی ہے صبا صبح کو غنچوں کے جگر
یہ کہانی مجھے شبنم نے سنا رکھی ہے
غنچہ غنچہ میں ہے پوشیدہ صلیب غم دوست
کس نے پھولوں میں یہ قاتل کی ادا رکھی ہے
کس کے چھپ جانے سے حیران ہوئی ہے دنیا
کس کے جلووں نے یہ دیوانی بنا رکھی ہے
زندگی ہو گئی کس طرح تو اتنی سستی
کس لئے تو نے بھری دنیا ستا رکھی ہے
علم سے جس کے مجھے مل سکے منزل کا نشاں
وقت نے مجھ سے وہی بات چھپا رکھی ہے
ہم نے ہر موڑ پہ چاہت کے جلائے ہیں چراغ
ہم نے ہر گام پہ الفت کی بنا رکھی ہے
تفرقوں کا نہیں آپس میں کہیں کوئی جواز
سب نے اوہام کی دیوار اٹھا رکھی ہے
درد ہجراں کے تسلسل سے نہ گھبرا دل زار
عشق نے درد کے اندر ہی دوا رکھی ہے
وقت لے آیا ہے خود حد میں اسے دیر سویر
جس نے بھی قد سے سوا اپنی انا رکھی ہے
اس ستم گر کا میں اے رازؔ کروں کیا شکوہ
ہر بلا میرے لئے جس نے روا رکھی ہے

غزل
وقت نے دل کی طبیعت میں وفا رکھی ہے
خلیل الرحمٰن راز