وقت مجبور اپنی عادت سے
بدلے لمحوں کو اپنی چاہت سے
کب رہا شوق جیتنے کا ہمیں
ہارتے ہی رہے ہیں قسمت سے
اس کی ہی بے رخی کا ہے انجام
ہم ہوئے دور اس کی الفت سے
درد غم رنج آہیں خاموشی
اور پایا ہے کیا محبت سے
اس نے کر لی ہی خود کشی آخر
تھا پریشاں وہ اپنی غربت سے
دو نگاہوں سے داؤں کھیلا پھر
لے گئے دل کو وہ شرارت سے
ہم کو بننا زمانے کے جیسا
آ گئے تنگ ہم شرافت سے
سارتھیؔ تو بھی اب بدل خود کو
سیکھ کچھ تو بدلتی قدرت سے

غزل
وقت مجبور اپنی عادت سے
مونیکا شرما سارتھی