وقت کی برف ہے ہر طور پگھلنے والی
دن بھی ہے زیر سفر شام بھی ڈھلنے والی
عشق سائے کی طرح ساتھ چپک جاتا ہے
یہ بلا تو نہ کسی طور ہے ٹلنے والی
ہم وہ پہیے جو اگر ساتھ برابر نہ چلے
ایک میٹر بھی یہ گاڑی نہیں چلنے والی
ایک دھڑکا ہے مرے دل کو خبرداری کا
ایک خواہش ہے مرے ذہن میں پلنے والی
زرد کہہ کر نظر انداز کیا تھا جس کو
اب وہی شاخ ہوئی پھولنے پھلنے والی
ہے عجب وقت کی ہولی کہ ہر اک چکر پر
سوئی چہرے پہ نیا رنگ ہے ملنے والی
دائرہ توڑا تو حیرت ہی در آئی ذیشانؔ
اب یہ حیرت نہیں اندر سے نکلنے والی
غزل
وقت کی برف ہے ہر طور پگھلنے والی
ذیشان ساجد