وقت کے کتنے ہی رنگوں سے گزرنا ہے ابھی
زندگی ہے تو کئی طرح سے مرنا ہے ابھی
کٹ گیا دن کا دہکتا ہوا صحرا بھی تو کیا
رات کے گہرے سمندر میں اترنا ہے ابھی
ذہن کے ریزے تو پھیلے ہیں فضا میں ہر سو
جسم کو ٹوٹ کے ہر گام بکھرنا ہے ابھی
کون ہے جس کے لیے اب بھی دھڑکتا ہے دل
کس کو اس اجڑے جزیرے میں ٹھہرنا ہے ابھی
ایک اک رنگ اڑا لے گئی بے مہر ہوا
کتنے خاکے ہیں جنہیں شامؔ جی بھرنا ہے ابھی
غزل
وقت کے کتنے ہی رنگوں سے گزرنا ہے ابھی
محمود شام

