وقت کے چہرے پہ چڑھتی دھوپ کا غازہ لگا
کچھ مرے رنگ سخن کا اس سے اندازہ لگا
ایک لفظ کن امین عالم امکاں ہزار
ایک اک لمحے سے تو صدیوں کا اندازہ لگا
ٹوٹ جاتا ہوں شکستہ آئنہ کو دیکھ کر
جب کبھی خود سے ملا ہوں زخم اک تازہ لگا
اک نہ اک آسیب چپکے سے ابھی در آئے گا
بند کر گھر کے دریچے لاکھ دروازہ لگا
سوچتا کیا ہے مقدر آزمانا شرط ہے
کھل ہی جائے گا دریچہ کوئی آوازہ لگا
چلچلاتی دھوپ کی نظروں نے تاکا ہے وہیں
سبز ٹہنی پر اگر اک پھول بھی تازہ لگا
عجز اعجاز سخن ہے معنیٔ ایجاد فن
قیمت عرض ہنر کا کچھ تو اندازہ لگا
غزل
وقت کے چہرے پہ چڑھتی دھوپ کا غازہ لگا
مختار شمیم