وقت کا سورج جلن کے روپ میں جب آ گیا
سنگ تن پر دھوپ کے سیلاب کو روکا گیا
پست ہمت کے ذریعہ ہو گیا رد عمل
ہم کو بے مقصد دلاسا دے کے بہلایا گیا
بے زباں زخموں کو فرط خواہشات زیست کو
جو نہ سمجھا غیر ذمہ دار وہ سمجھا گیا
درد کی لہروں نے رکھا مضطرب انفاس کو
نام کے طوفاں سے جسم آرزو ڈھانپا گیا
آخری باتوں کی روپوشی کے وہ قائل نہ تھے
کہنے والوں کو مگر کہنے سے بھی روکا گیا
ہم بچاتے ہی رہے اس کو محبت سے حصیرؔ
اپنی حرکت سے مگر وہ خود یہاں پکڑا گیا

غزل
وقت کا سورج جلن کے روپ میں جب آ گیا
حصیر نوری