EN हिंदी
وقت جیسا ہے بہ ہر طور گزر جانا ہے | شیح شیری
waqt jaisa hai ba-har-taur guzar jaana hai

غزل

وقت جیسا ہے بہ ہر طور گزر جانا ہے

سید نواب حیدر نقوی راہی

;

وقت جیسا ہے بہ ہر طور گزر جانا ہے
آج جو زندہ حقیقت ہے کل افسانہ ہے

کب جلی شمع تمنا ہمیں کچھ یاد نہیں
اتنا معلوم ہے جل کر اسے بجھ جانا ہے

میری وحشت نے ابھی پاؤں نکالے بھی نہ تھے
دل بے تاب نے ضد کی مجھے گھر جانا ہے

وا اگر باب مروت کو نہیں ہے ہونا
آج ہی کہہ دیں جو کل آپ کو فرمانا ہے

گردش وقت کا یہ جبر ہے شاید جو لوگ
صبح زندہ ہیں مگر شام کو مر جانا ہے

چشم بینا پہ لگی تہمت نظارا یوں ہی
حد ادراک تلک تار نظر جانا ہے

غرق ہونا نہ کہیں خواب فراموشی میں
منہ اندھیرے ہی تمہیں راہیؔ اگر جانا ہے