وقت رخصت وہ آنسو بہانے لگے
دل دکھانے کے منظر سہانے لگے
پرسش درد کو جب وہ آنے لگے
زخم دل مثل گل مسکرانے لگے
رات پل بھر کو پلکیں جھپکنے نہ دیں
صبح ہوتے ہی آنکھیں چرانے لگے
آنکھ بھر آئی برکھا کے پانی کی جب
ناؤ کاغذ کی بچے بہانے لگے
میرے آنسو تھے ان کی ہنسی کا سبب
روئی شبنم تو گل مسکرانے لگے

غزل
وقت رخصت وہ آنسو بہانے لگے
رام اوتار گپتا مضظر