وقت ابھی پیدا نہ ہوا تھا تم بھی راز میں تھے
ایک شکستہ سناٹا تھا ہم آغاز میں تھے
ان سے پیار کیا جن پر خاموشی نازل کی
ان پر ظلم کیا جو بند اپنی آواز میں تھے
ہر قیدی پر آزادی کی حد جاری کر دی
ہونٹوں کا اعجاز ہوئے جو نغمے ساز میں تھے
حبس تھا کوئی صبح فروزاں ہونے والی تھی
شام قدم بوسی پر تھی سائے پرواز میں تھے
جس نے خون میں غسل کیا اور آگ میں رقص کیا
حیف کہ سارے ہنگامے اس کے اعزاز میں تھے

غزل
وقت ابھی پیدا نہ ہوا تھا تم بھی راز میں تھے
ساقی فاروقی