وقت اب سر پہ وہ آیا ہے کہ سر یاد نہیں
تیرے دیوانوں کو بھی اب ترا در یاد نہیں
ہائے وہ شب جو ترے وعدۂ شب میں گزری
ہائے وہ شب ہے کہ جس شب کی سحر یاد نہیں
زندگی کیسے کٹی داور محشر یہ نہ پوچھ
وہ سفر یاد تو ہے رخت سفر یاد نہیں
میرے اعمال پہ جائے تو یہ سمجھوں گا تجھے
یاد ہے دامن تر دیدۂ تر یاد نہیں
پیار سے اب بھی وہ تکتے ہیں مجھے پر ان کو
جس نے دل لوٹ لیا تھا وہ نظر یاد نہیں
عمر بھر تھام کے اس شوخ کا دامن روئے
سوزؔ کیا اس پہ ہوا اس کا اثر یاد نہیں
غزل
وقت اب سر پہ وہ آیا ہے کہ سر یاد نہیں
عبد الملک سوز