وقت آخر لے گیا وہ شوخیاں وہ بانکپن
پھول سے چہرے تھے کتنے اور تھے نازک بدن
لوگ رکھتے ہیں دلوں میں آتش بغض و حسد
اور پھر کرتے ہیں شکوہ جل رہا ہے تن بدن
چل پڑے جب جانب منزل تو پھر اے ہم سفر
کیا سفر کی مشکلیں کیا دوریاں کیسی تھکن
ہم نہیں توڑیں گے اپنا اتفاق و اتحاد
کر چکے ہیں فیصلہ یہ اب سبھی اہل وطن
ان کی سازش ہے کہ بس نام وفا مٹتا رہے
میری کوشش ہے پھلے پھولے وفاؤں کا چلن
جشن ہوگا پھر وفا کا دوستی کا ایک دن
پھر سجے گی پیار کے احساس کی اک انجمن
جو بھی ہیں شایانؔ اہل ظرف ان کو خوف کیا
ان کے آگے سرنگوں ہیں وقت کے دار و رسن

غزل
وقت آخر لے گیا وہ شوخیاں وہ بانکپن
شایان قریشی