وجود مٹ گیا پروانوں کے سنبھلنے تک
دھواں ہی اٹھتا رہا شمع کے پگھلنے تک
کسے نصیب ہوئی اس کے جسم کی خوشبو
وہ میرے ساتھ رہا راستہ بدلنے تک
اگر چراغ کی لو پر زبان رکھ دیتا
زبان جلتی بھی کب تک چراغ جلنے تک
جہاں بھی ٹھہرو گے رک جائے گا تمہارا وجود
تمہارے ساتھ چلے گا تمہارے چلنے تک
ابھی سے راہ میں نظریں بچھا کے مت بیٹھو
پلٹ کے آئے گا وہ آفتاب ڈھلنے تک
ہوا کا کیا ہے نہ جانے یہ کب بدل جائے
بدل چکے گا زمانہ ترے بدلنے تک
سکون کس کو ملا زندگی کی راہوں میں
غبار اٹھتا رہا قافلہ نکلنے تک
غزل
وجود مٹ گیا پروانوں کے سنبھلنے تک
صالح ندیم