وجہ قدر و قیمت دل حسن کی تنویر ہے
ورنہ اک ٹوٹے ہوئے شیشے کی کیا توقیر ہے
کچھ تبسم زیر لب پر شرم دامن گیر ہے
اف یہ کس عالم میں کھنچوائی ہوئی تصویر ہے
اک نظر دیکھا جسے مدہوش و بیخود کر دیا
تیری کیف آگیں نگاہوں میں عجب تاثیر ہے
کتنی دلکش ہیں تری تصویر کی رعنائیاں
لیکن اے پردہ نشیں تصویر پھر تصویر ہے
پھونک دے برق تپاں میرا قفس بھی پھونک دے
آشیاں کی بھی تو اک بگڑی ہوئی تصویر ہے
لن ترانی کہہ دیا تھا طور پر جس نے شکیلؔ
ذرے ذرے میں اسی کے حسن کی تصویر ہے
غزل
وجہ قدر و قیمت دل حسن کی تنویر ہے
شکیل بدایونی