ویسے تو تھے یار بہت پر کسی نے مجھے پہچانا تھا
تم نے بس اک سمجھا مجھ کو تم نے بس اک جانا تھا
تم بن سجنی جیون اپنا سونا آنگن ٹوٹا سپنا
دل کو تم سے راہ تھی اتنی ہم نے کب یہ جانا تھا
میں تو پاپی میری خاطر اپنا سب کچھ دان کیا کیوں
دنیا جیسی پیاری بستی ایسے چھوڑ کے جانا تھا
موت اور دل پر کسی کو قابو آئے تو اپنی مرضی آئے
میری خاطر جان گنوانا یارو ایک بہانا تھا
میں نے یارو تم سے سنا تھا وقت کا مرہم بھر دے ہر غم
اگلی پچھلی ساری باتیں مجھ کو بھول ہی جانا تھا
بھور کا بچھڑا سانجھ کو لوٹا اپنے کئے پر پہروں رویا
دل کی بینا ٹوٹ گئی تھی پھر بھی تم کو گانا تھا

غزل
ویسے تو تھے یار بہت پر کسی نے مجھے پہچانا تھا
یوسف تقی