EN हिंदी
وحشت میں یاد آئے ہے زنجیر دیکھ کر | شیح شیری
wahshat mein yaad aae hai zanjir dekh kar

غزل

وحشت میں یاد آئے ہے زنجیر دیکھ کر

زین العابدین خاں عارف

;

وحشت میں یاد آئے ہے زنجیر دیکھ کر
ہم بھاگتے تھے زلف گرہ گیر دیکھ کر

جب تک نہ خاک ہو جیے حاصل نہیں کمال
یہ بات کھل گئی ہمیں اکسیر دیکھ کر

عذر گناہ داور محشر سے کیوں کروں
غم مٹ گیا ہے نامۂ تقدیر دیکھ کر

ہوں تشنہ کام دشت شہادت زبس کہ میں
گرتا ہوں آب خنجر و شمشیر دیکھ کر

عارفؔ چھپا تو ہم سے ولے ہم تو پا گئے
جو بات ہے یہ رنگ کی تغییر دیکھ کر