EN हिंदी
وحشت میں بھی رخ جانب صحرا نہ کریں گے | شیح شیری
wahshat mein bhi ruKH jaanib-e-sahra na karenge

غزل

وحشت میں بھی رخ جانب صحرا نہ کریں گے

مرزارضا برق ؔ

;

وحشت میں بھی رخ جانب صحرا نہ کریں گے
جب تک کہ تمہیں شہر میں رسوا نہ کریں گے

گھبرا گئے بیتابی دل دیکھ کے اے جان
ٹھہرو تو ابھی ہجر میں کیا کیا نہ کریں گے

مر جاؤں تو مر جاؤں برا مانیں تو مانیں
پھر کیسے مسیحا ہیں جو اچھا نہ کریں گے

وہ حسن میں کامل ہیں تو ہم صبر میں یکتا
تا عمر کبھی ذکر بھی ان کا نہ کریں گے

چھپ چھپ کے کہیں گے جو چھپانے کے سخن ہیں
ہم تم سے کسی بات کا پردا نہ کریں گے

بدنامی سے ڈرتے ہو عبث عشق میں اے برقؔ
کب تک بشر اس بات کا چرچا نہ کریں گے